آج کپاس کے ایک خریدار ( آڑھتی )کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا. گپ شپ میں مصروف تھے کہ ایک کسان گدھا گاڑی پہ کپاس کی چند گانٹھیں لادے ہوئے نمودار ہوا . گدھے نے مخصوص آواز میں اپنے آنے کی اطلاع دی .جو کہ آڑھتی کی طبع نازک پر ناگوار گزری. لیکن پھر بھی آڑھتی کے چہرے پہ ایک خاص چمک نظر آئی. مزدوروں کو فوری دو کپ چائے لانے کا آرڈر ہوا . پلے دار گدھا گاڑی کی طرف لپکے . منٹوں سیکنڈوں میں گدھے کو ریڑھی سے یوں الگ کر دیا گیا جیسے وزیر ریل محترم شیخ رشید کے ریل کے انجن کبھی کبھی خود بخود گاڑی سے الگ ہو جاتے ہیں. کپاس کا وزن ہونا شروع ہوا. پلے دار 42 کلو وزن کو ایک من کاؤنٹ کروا رہے تھے. مجھے بڑا تعجب ہوا . میں نے اس آڑھتی سے پوچھا کہ 42 کلو کا من تو نہیں ہوتا. من تو 40 کلو کا ہوتا ہے.??? اس نے جواب دیا نہیں بابو ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے . یہاں کپاس کے 42 کلو وزن کو 1 من تصور کیا جاتا ہے . اسی طرح سورج مکھی42 کلو کو 1 من, گندم102.5 کلو کو 1 بوری اور مختلف اجناس باجرہ , ماش , چنے وغیرہ بھی 102.5 کلو کو 1بوری تصور کیا جاتا ہے . ہماری غلہ منڈیوں کا یہ ایک رول ہے اور اسے کوئی بھی نہیں بدل